مُکمل سے نا مُکمل
ہماری زندگی کا زیادہ وقت تعلیم، شادی، بچے، ترقی کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہوئے گُزر جاتا ہے۔ لیکن ہم سب اِس سے زیادہ چاہتے ہیں، کیا ایسا نہیں ہے؟ ہمیں اِس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری زندگی اہم ہے اور اِس کا ایک مقصد ہے۔ اور ہم زندگی کی مصروفیت اور دباؤ سے باہر قناعت پسند ی کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ یہ چیزیں صر ف خُدا کے ساتھ ہمارے تعلقات میں پائی جاتی ہیں۔ اِس کے بغیر کُچھ بھی معنی نہیں رکھتا۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ روت کی کتاب میں جب ہم نعومی کی زندگی پر نظر کرتے ہیں تو یہ سب چیزیں ہمیں کیسی نظر آتی ہیں۔
پہلے باب میں وہ ہمیں اُداس اور تلخ نظر آتی ہے۔ ہمیں یہ بات واضع نظر آتی ہے کہ نعومی خُدا کی خُود مُختاری کو سمجھتی تھی، اِس لیے اُس نے اپنے شوہر اور بیٹوں کی موت اور حالات کے مُشکل ہونے کا شِکوہ خُدا کے ساتھ کیا۔ اور کہا کہ وہ غیر مُلک میں کسی قِسم کا سہارا نہیں دیتا۔ " اُس نے ان سے کہا کہ مجھ کو نعومی نہیں بلکہ ماراہ کہو اس لیے کہ قادر مطلق میرے ساتھ نہایت تلخی سے پیش آیا ہے "(روت 1 باب 20 آیت)۔ اِس مایوسی کے عالم میں وہ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ اپنے گھر چلی جائے گی جو کہ بیت الحم میں ہے اور جہاں کے ماحول سے وہ واقف تھی۔
دوسرے باب میں نعومی کو پتہ چلتا ہے کہ روت بوعز کے کھیت میں فصل اِکٹھی کر رہی ہے جو کہ اُن کا رِشتہ دار تھا اور وہ زمین جِو نعومی کے شوہر کی مِلکیت تھی بوعز اُس کے وراثتی حقوق کے بارے میں بھی جانتا تھا۔ یہ بات واضع ہے کہ نعومی کے پاس اپنی زمین کو چھُڑوانے کےلیے پیسے نہیں تھے۔ لیکن جب نعومی کو پتہ چلا کہ بوعز اُس کا قریبی رِشتہ دار ہے اور زمین کو بحال کر سکتا ہے تو وہ خوش ہوئی۔ " یہ شخص ہمارے قریبی رشتہ کا ہے اور ہمارے نزدیک کے قرابتیوں میں سے ایک ہے" (روت 2باب 20 آیت)۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اِس بات کو سوچتی ہو کہ بوعز کے ساتھ اُس کا سامنا کوئی موقع نہیں بس ایک اُمید ہوسکتا ہے۔
تیسرے باب سے ہمیں اِس بات کا پتہ چلتا ہے کہ نعومی اِس ساری صورتحال میں پوری طرح مشغول ہے، اور شاید اِس کہانی میں پہلی بار، اپنے عِلاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اِس باب کی پہلی آیت میں اُس نے روت کو کہا " میری بیٹی کیا میں تیرے آرام کی طالب نہ بنوں جس سے تیری بھلائی ہو" (روت 3باب 1)۔ پھر وہ روت کو اپنے منصوبے کے بارے میں بتاتی ہے۔
یہ منصوبہ یہودی ثقافت اور خُدا کی طرف سے دی گئی موسیٰ کی شریعت پر مبنی تھا۔ اِس لیے وہ جانتی تھی کہ وہ جو کرنے جا رہی ہے غلط نہیں ہے ۔ وہ تلخی اور افسُردگی سے اُمید کی طر ف بڑھی اور جِس کا وہ خیال کرتی تھی اُس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سوچنے لگی۔ جب باب 4 کا آغاز ہوتا ہے تو ہمیں پُرانی نعومی ( جس کا مطلب ہے خُوشی) نظر آتی ہے۔ اِس باب کا آغآز شہر کے دروازے سے ہوتا ہے جہاں پر بوعز بحالی اور تحفظ کے بارے میں جو حقوق ہیں اُن کے بارے میں بات کرتا ہے۔
اِن قانونی مُعاملات کو حل کرنے کے بعد ہی وہ اور رُوت شادی کر سکتے ہیں۔ اِس مقام پر کہانی تیزی سے آگے بڑھتی ہے۔ اُن کی شادی ہو جاتی ہے اور اُن کا ایک بیٹا پیدا ہو جاتا ہے جس کا نام وہ عُبید رکھتے ہیں۔ " خداوند مبارک ہو جس نے آج کے دن تجھے نزدیک کے قرابتی کے بغیر نہیں چھوڑا اور اس کا نام اسرائیل میں مشہور ہو" (روت 4 باب 14 آیت)۔
ہم ہر کہانی کا اِختتام اچھا چاہتے ہیں۔ اور اپنے لیے بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔ اِس کے لیے ہم نعومی سے بھی کُچھ سیکھ سکتے ہیں۔ کہانی کے آغاز میں نعومی غُربت، تنہائی، غم جیسے مسائل کا شِکار تھی۔ اگر خُدا اُس کو خوشی اور افادیت کی جگہ پر لے کر جا رہا تھا تو اِس کے لیے ایک بڑی شِفا کی ضرورت تھی۔
1۔ شِفا کے لیے جو پہلا قدم تھا وہ یہ تھا کہ اُس کو خُدا کی طرف آنا تھا۔
یہ ہمارے لیے بھی ہے۔ جب ہم خُدا کو اپنی زندگی کا سب سے اہم مرکز بنا لیتے ہیں تو اِسے ہمارے دِلوں تک پہنچنے اور وہاں ہونے والے درد، غم، تلخی کو شِفا دینے کا موقع مِلتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم مُثبت جذبات کا تجربہ کریں نہ کہ منفی جذبات کا۔ گلتیوں 5 باب 22-23۔
2۔ دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ وہ روت کو اپنی زندگی کا حِصہ بنائے اور دوسرا اُن عورتوں کے ساتھ ایماندار رہے جنہوں نے اُس کا بیت لحم میں اِستقبال کیا تھا۔
زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے مُکمل ہونے میں برادری کا تعاون بہت ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں بھی اِس مقصد کے لیے اپنے ساتھ کلیسیا کے لوگوں اور دوسرے مسیحیوں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی ایک یا دو لوگ ایسے بھی ہوں جن کے سامنے آپ اپنے دِل کی بات کر سکتے ہوں (جیسے نعومی روت کے ساتھ تھی)۔ اِس لیے ہمیں روحانی سفر کو اکیلے طے نہیں کرنا چاہیے۔
3۔ تیسرا مرحلہ تھا خُدا کے منصوبے کو اپنی زندگی میں شامل کرنا۔
نعومی نے روت کے دِل کو جیت لیا تھا اور وہ دونوں بوعز کے پاس جانے والے منصوبے پر عمل کرنے کے لیے اِکٹھی تھیں۔ کلامِ مُقدس ہمیں بتاتا ہے کہ خُدا ہمارے لیے بھی منصوبہ رکھتا ہے۔ جب ہم دُعا کے ساتھ کلام ِ مُقدس کو پڑھتے ہیں تو خُدا کا کلام ہمارے لیے ایسی باتوں کو ظاہر کرتا ہے جو ہمیں اُس منصوبے کو جاننے میں مدد کرتی ہیں جن سے ہم جان سکتے ہیں کہ ہمارے لیے خُدا کا اگلا منصوبہ کیا ہے۔
4۔ چوتھے مرحلے میں ہمیں جو بھی نتیجہ ہو اُس کے لیے خُدا پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلے باب سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ نعومی جانتی تھی کہ سب کُچھ خُدا کے اِختیار میں ہے۔ وہ یا تو اِس کے ساتھ چلتی یا پھر اِس کے خلاف۔ اُس نے اپنے لیے خُدا پر اعتبار کرنے کو مُقدم جانا۔ ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہوئے بھی خود کُچھ نہیں کر سکتے۔ آپ اِطمینان کے کِتنے قریب ہیں۔ یہ آپ کی زندگی کے حِصہ بھی ہو سکتاہے۔ خُدا باپ جو ہمارے لیے فِدیے اور تحفظ کا منصوبہ رکھتا ہے ، وہ ہمیں برکت دینا چاہتا ہے۔
آدمی کے دِل میں بہت سے منصوبے ہیں لیکن صرف خداوند کا اِرادہ ہی قائم رہیگا "۔ اِمثال 19 باب 21 آیت "
Comments