تبدیلی کی کہانی
روت کی کہانی میں ہماری دلچسپی کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ ایک مُحبت کی کہانی ہے، اِس لیے کون اِس کہانی کو پسند نہیں کرے گا۔ لیکن کیا آپ اِس بات سے واقف ہیں کہ روت کی کِتاب میں روت اور بوعز کی مُحبت سے بڑھ کر کُچھ اور بھی ہے۔ یہ ہمارے لیے خُدا کی مُحبت اور تخلیقِ کائنات سے پہلے ہی اِنسان کو بچانے کے منصوبے کی تصویر ہے۔ جیسے جیسے ہم کہانی کے اِختتام کی جانب بڑھیں گے، ہم اور زیادہ باتوں کو جانیں گے۔ روت کی کہانی ہمارے لیے روحانی زندگی کی ایک بڑی تصویر پیش کرتی ہے، کہ ہم کِس طرح سے پورے دِل کے ساتھ خُدا کی پیروی کرسکتے ہیں اور اُس پر یقین رکھنے کے نتائج کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں۔ آئیے ہم اِبتدا سے اِس کا آغاز کرتے ہیں۔ روحانی زندگی کا آغاز تبدیلی سے ہوتاہے۔
پیدائشی طور پر روت ایک یہودی نہیں تھی۔ وہ موآبی تھی، جو مشرق کی طرف اِسرائیل کی سرحد سے مُتصل سر زمین میں پیدا ہوئی تھی۔ ایک ایسا مُلک جو مُستقل طور پر اِسرائیل کا دُشمن تھا۔ در حقیقت پیش گوئی کی کتابیں موآب کے خِلاف فیصلے کے اعلانات سے بھری ہوئی ہیں، کیونکہ وہ خُدا کے لوگوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے۔موآب میں جہاں پر روت کی پرورش ہوئی وہاں پر بہت سے دیوتاؤں کی پرورش کی جاتی تھی خاص طور پر کموس کی جس کوساری قوم کا دیوتا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن روت کی کِتاب کے پہلے باب میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روت نے اپنے آباؤاجداد کی مذہبی تعلیمات کو چھوڑ کر ،اپنی ساس نعومی اور اِسرائیلی قوم کے خُدا کو اپنا لیا۔
پہلے باب میں ہم اِس کہانی کے پسِ منظر کو پڑھتے ہیں۔ نعومی اور اُس کا شوہر الیملک اپنے دو بیٹوں کے ساتھ قحط کے باعث یہوداہ کے شہر بیت الحم (جس کا مطلب ہے روٹی کا شہر) سے ہِجرت کر کے موآب کو آئے اور وہاں پر کئی سال قیام کیا۔اِسی دوران اُن کے بیٹے بڑے ہو گئے اور اُن کی شادیاں موآبی لڑکیوں کے ساتھ ہوئیں جن میں سے ایک کا نام روت اور دوسری کا نام عرفہ تھا۔ کُچھ اساتذہ کا یہ ماننا ہے کہ اِن دونوں خواتین نے شادی کے بعد یہودی مذہب کو اپنا لیا تھا۔ پھر الیملک اور اُس کے دونوں بیٹے فوت ہو گئے ، اور اِس وجہ سے نعومی اور اُس کی دونوں بہوئیں بہت پریشانی کی حالت میں تھیں۔ جب نعومی کو تنہائی اور سخت گھریلو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اُس نے اپنے آبائی شہر بیت المقدس کو لَوٹ جانے کا فیصلہ کیا لیکن اِس کے ساتھ اُس نے اپنی بہوؤں کو موآب میں رہنے کی تلقین کی۔ کُچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اِس طرح سے نعومی اِس بات کی جانچ کر رہی تھی کہ اُس کی بہوئیں اُس کے ساتھ، اور اِسرائیل کے خُدا کے ساتھ کتنی وفادار ہیں۔
اگر ایسا تھا تو عرفہ جس نے موآب میں رہنے کو ترجیح دی وہ شاید سچی ایماندار نہیں تھی۔لیکن دوسری طرف روت ہے ،جس نے نعومی کے سامنے ایک ایسا بیان دیا جِس سے اُس کا تاحیات عزم اور اپنے عقیدے کے ساتھ خلوص نظر آتا ہے۔ " روت نے کہا تو مِنت نہ کر کہ میں تجھے چھوڑوں اورتیرے پیچھے سے لَوٹ جاؤں کیونکہ جہاں تو جائیگی میں جاؤنگی اور جہاں تو رہیگی میں رہونگی تیرے لوگ میرے لوگ اور تیرا خُدا میرا خُدا۔ جہاں تو مریگی میں مرونگی اور وہیں دفن بھی ہونگی خُداوند مجھ سے ایسا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ کرے اگر موت کے سوا کوئی چیز مجھ کو تجھ سے جُدا کر دے (روت 1 باب 16آیت سے 17)"۔
اپنی زندگی کے اندر چند فیصلے جو ہم کرتے ہیں وہ ہماری ساری زندگی کی سِمت کا تعین کرتے ہیں۔ وہ زندگی جو روت موآب میں گُزار رہی تھی اُس سے مُکمل طور پر اپنے آپ کو علیحدہ کیا اور واحد اور سچے خُدا کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا، اور وہ نعومی کے ساتھ بیت الحم کو چلی گئی۔ یہ ایک جُرت مندانہ فیصلہ تھا۔ لیکن اِس فیصلے کے پیچھے صرف روت کے دِل میں نعومی کے لیے مُحبت ہی نہیں تھی بلکہ کُچھ اِس سے بھی بڑھ کر تھا اور وہ روت کا اپنے خُدا کے ساتھ تعلق تھا۔
اِس بات سے ہمیں ابراہام کی یاد آتی ہے۔ پیدائش کی کتاب کا 12 باب اور 1 آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اُس نے بھی اپنے مُلک کو چھوڑا، اپنے رِشتہ داروں کو چھوڑا اور اپنے باپ کے گھر کو چھوڑا تاکہ ایسے مُلک کو جا سکے جو خُدا نے ابھی اُس کو دِکھایا نہیں تھا۔ روت شاید اِس بات کو نہیں جانتی تھی، مگر وہ باپ ابراہام کی طرز پر چل رہی تھی جِس کے لوگوں کے ساتھ اُس نے زِندگی گُزارنی تھی، پرستش کرنی تھی اور جن کے مُستقبِل میں ایک کلیدی کردار ادا کرنا تھا۔ ہم ابراہام اور روت کی کہانیوں سے یہ جان سکتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ خُدا کی طرف بڑھایاہُوا ہمارا پہلا قدم ہی ہر ایک چیز کو بدل دیتا ہے۔ خُدا اپنے آپ کو ہم پر مُسلط نہیں کرتا بلکہ وہ ہمیں بُلاتا ہے، اور ہمیں اِس بات کا فیصلہ کرناہے کہ ہمیں اُس پر ایمان رکھنا ہے اور اُس کی پیروی کرنی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ خُدا تک ہماری رسائی یسوع مسیح کے وسیلے سے ہے جو زمین پر آیا، مر گیا، جی اُٹھا اور آسمان پر چلا گیا۔ تو خُدا کی طرف رُجوع کرنے کا مطلب کسی دوسری قوم کی طرف جانا نہیں ہے کہ اب اُن کے خُدا کی پیروی کی جائے گی۔ بلکہ یسوع کے وسیلے سے ہم کائنات کے خالق کی طرف رُجوع کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں
روت کی طرح اپنا سامان باندھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں دُعا کے ذریعے توبہ کرنی ہے۔
تب ہم اُس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا عزم کرتے ہیں۔ ہم دُعا کرتے ہیں، پرستش کرتے ہیں،ہم دُوسرے ایمانداروں کے ساتھ رفاقت رکھتے ہیں، کلام پڑھتے ہیں اورخدِمت کا کام کرتے ہیں۔یسوع مسیح کے وسیلے سے خُدا کے ساتھ ہمارا تعلق، ہماری زندگی کا بُنیادی مرکز بن جاتا ہے۔روت کی زندگی کا مُطالعہ ہمیں سِکھاتا ہے کہ جب ہم خُدا کو اپنی زندگی میں اول درجہ دیتے ہیں تو باقی سب چیزوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ اِس لیے کسی بھی چیز کو اپنے اور خُدا کے درمیان حائل نہ ہونے دیں۔ اپنے اندر سے خوف کو ختم کر کے خُدا پر بھروسہ رکھیں۔ خُدا جو کُچھ آپ کو کہتا ہے اُن کاموں کو کرنے کا آغاز آج ہی سے کریں۔ وہ آپ کی اطاعت اور عزم کو اہمیت دے گا ، اور آپ اپنی زندگی میں تبدیلی اور روح میں ترقی کو محسوس کریں گے۔ ہوسکتا ہے کہ خُدا آپ کو مُشکل کام کرنے کو کہے، لیکن وہ آپ کو کبھی مایوس نہیں کرے گا۔
"سارے دِل سے خُداوند پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنُمائی کریگا" اِمثال 3 باب 5-6 آیت۔
Comments