بحالی کی اُمید
اب تک روت کے بارے میں کیے جانے والے مُطالعے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اُس نے موآب کے بُتوں کی پرستش کو چھوڑکر اِسرائیل کے زندہ خُدا پر ایمان رکھااور اپنی سرزمین کو چھوڑ دیا۔وہ بوعز کے کھیتوں میں فصل اِکٹھی کر رہی تھی، اور اِس دوران بوعز نے اُس پر دھیان کیا۔ وہ روت کی طرف اُس کی خوبصورتی کی وجہ سے مُتوجہ نہیں ہوا بلکہ اُس کےاچھے کردار اور خاص طور پر نعومی کے ساتھ جو اُس کا رویہ تھا اُس کی وجہ سے۔ ابھی تک تو روت کو ثقافتی اور روحانی مسائل کا سامنا تھا۔ بیشک موآب میں پرورش پانے کے بعد، اِسرائیل کی زبان، رسم و رواج، طرزِ زندگی سب ہی اِس کے لئے نئی تھیں۔ لیکن بیت الحم میں جو نئی زندگی وہ گُزار رہی تھیں اُس کے ساتھ وہ خُدا پر بھروسہ کرنا سیکھ رہی تھی۔
روت کی کتاب کے تیسرے باب میں نعومی، روت کو رشتہ داروں کے بارے میں یہودی قانون سے مُتعار ف کرواتی ہے اور بتاتی ہے کہ رِشتہ داروں کو مُعاشرتی طور پر ایک مددگار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ مُشکل وقت میں ایک دوسرے کی سماجی طور پر، مُعاشرتی طور پر اور روپے پیسے کے ساتھ مدد کر سکتے ہیں اور اگر ہو سکے تو کوئی قریبی رشتہ دار بیوہ سے نِکاح کر سکتا ہے تاکہ اولاد پیدا ہوسکے اور خاندان کا نام قائم رہ سکے۔ روت اِس بات کو سمجھتی تھی لیکن یہ سب کرنے کے لیے اُس کو مُشکلات کا سامنا کر پڑ سکتا تھا۔
جب دوسرے باب میں کہانی آگے بڑھتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ روت بوعز کے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے اُس کے دِل میں جگہ بنا لیتی ہے۔ جب اُس نے نعومی کو اِس بارے میں بتایا تو نعومی نے کہا کہ اِس بات کو آگے بڑھانے کا یہ صحیح وقت ہے۔ اُس نے روت کو یہ کہا " اور کیا بوعز ہمارا رشتہ دار نہیں جسکی چھوکریوں کے ساتھ تو تھی ؟ دیکھ وہ آج کی رات کھلیہان میں جو پھٹکیگا ۔ سو تو نہا دھو کر خوشبو لگا اور اپنی پوشاک پہن اور کھلیہان کو جا اور جب تک وہ مرد کھا پی نہ چکے تب تک تو اپنی تئیں اس پر ظاہر نہ کرنا۔ جب وہ لیٹ جائے تو اسکے لیٹنے کی جگہ کو دیکھ لینا تب تو اندر جا کر اسکے پاؤں کھول کر لیٹ جانا اور جو کچھ تجھ کو کرنا مناسب ہے وہ تجھ کو بتائیگا" (روت 3 باب 2-4)۔
اگر میں روت ہوتی تو یہ سوچتی کہ وہ جگہ جہاں پر فصل اِکٹھی ہے وہاں پر رات کو جاؤں اور ایک اجنبی کے پاؤں والی طرف لیٹ جاؤں یہ کیسے ممکن ہے۔ لیکن روت نے نعومی پر اعتبار کرتے ہوئے پانچویں آیت میں جواب دیا " جو کُچھ تُو مُجھ سے کہتی ہے میں وہ کروں گی"۔ یہ اعتماد کی اِنتہا اور ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔
اُس نے ویسا ہی کیا جیسا نعومی نے اُس کو بتایا تھا اور جب بوعز کو محسوس ہو ا کہ اُس کے پاؤں کی طرف کوئی ہے تو اُس نے پوچھا کہ کون ہے تو نویں آیت بتاتی ہے " تب اس نے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے کہا میں تیری لونڈی روت ہوں ۔ سو تو اپنی لونڈی پر اپنا دامن پھیلا دے کیونکہ تو نزدیک کا قرابتی ہے"۔ یہ بہت دِلچسپ الفاظ ہیں اور اِس جیسے الفاظ کو بوعز نے اُس وقت بھی اِستعمال کیا تھا جب اُس کا تعارف روت کے ساتھ ہوا تھا۔ اُس نے کہا " خداوند تیرے کام کا بدلہ دے بلکہ خداوند اسرائیل کے خدا کی طرف سے جسکے پروں میں تو پناہ کے لیے آئی ہے تجھ کو پورا اجر ملے"۔ اُس نے روت کو دیکھا کہ وہ خُدا میں اپنے لیے پناہ کی مُتلاشی تھی اور اب وہ اُس کے پاس دُنیاوی طور پر آئی تھی۔
مُختصراً وہ شادی کی بات کر رہی تھی۔ ایک اور مُشکل۔ لیکن خوش قسمتی سے بوعز اِس بات سے خوش تھا اور اُس نے اِس بات کو ممکن کیا کہ اُن کی شادی ہو سکے۔ مُجھے ایسا لگتا ہے کہ روت نے ضرور سُکھ کا سانس لیا ہو گا۔ جب خُدا کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے ہمیں اپنے آپ کو مُشکل حالات کے لیے پیش کرنا پڑتا ہے تو ہم کیا کرتے ہیں؟ پادری اور لِکھاری جان آرتھ برگ کہتے ہیں " آگے بڑھنے کے فیصلے میں ہمیشہ مُشکلات اور راحت کے درمیان فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ یسوع کے پیروکار بننے کے لئے ہمیں آسان زندگی کا اِنکار کرنا ہو گا۔
کیا ہم اِس بات کے لیے تیار ہیں کہ خُدا ہمیں ہماری خواہشات سے بھری زندگی سے باہر نِکالے اور تبدیل کر دے؟
اپنی زندگی کے بارے میں سوچیں۔ وہ کون سی ایسی مُشکلات ہیں جن کا سامنا آپ کو خُدا کے لیے کرنا پڑے؟
1۔ ہو سکتا ہے کہ کسی ٹُوٹے ہوئے رِشتے کو بحال کرنے میں پہل کرنی پڑے۔
2۔ کسی اجبنی کو جو خُدا کے بارے میں نہیں جانتا بتانا پڑے۔
3۔ ہو سکتا ہے کہ کسی ایسے شخص کو مُعاف کرنا پڑے جِس کی وجہ سے آپ کو بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
4۔ ہوسکتا ہے کہ وہ جھوٹ جو آپ اپنے آپ سے بول رہے ہوں اُس سے نجات پا کر خُدا کو سچائی کو جاننا ہو۔
5۔ ہوسکتا ہے کہ وہ زندگی جس کے آپ عادی ہوں، آسائشوں سے بھرپور زندگی کو چھوڑنا پڑے۔
6۔ وہ عادات جو آپ کی زندگی کو بنانے کی بجائے تباہ کر رہی ہیں اُن کو چھوڑنا پڑے۔
7۔ ہو سکتا ہے کہ دوسرے مسیحیوں کے ساتھ اِس طرح سے برتاؤ کرنا ہو جس طرح آپ نے پہلے کبھی نہیں کیا۔
اگر خُدا آپ کی رہنُمائی کر رہا ہے تو اُس کی تابعداری کرنا کوئی خطر ناک بات نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ہم کون سے اِقدامات کرکے ابدی زندگی کو بیج بو سکتے ہیں۔ بامقصد اور خوشی سے بھرپور زندگی۔ ہم ساکن بیٹھ کر اُس جگہ پر نہیں پہنچ سکتے۔ روت نے خُدا کی پیروی کرنے کے لیے سب کُچھ داؤ پر لگا دیا اور خُدا نے اُس کو برکت دی۔ کیا ہم ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
Comments